*کورونا وائرس _________اور حفاظتی واحتیاطی تدابیر کے تحت ترک مصافحہ کا حکم*
بقلم : شکیل منصور القاسمی/بیگوسرائے
اسلام زندہ جاوید ، رواں و ہر دم جواں، متحرک وفعال معتدلانہ آسمانی مذہب ہے، اس میں توہم پرستی ( اسباب پرستی ) کی کوئی گنجائش ہے نہ ترک اسباب کی تعلیم وتلقین ، دنیا کے اس ظاہری وتکوینی نظام میں خدا تعالی نے اپنی حکمت ومشیت کے مطابق ہر چیز کو کسی نہ کسی سبب کے ساتھ متعلق فرمادیا ہے۔ یہاں ہر کام کا کوئی نہ کوئی سبب مقرر ہے۔دنیا میں رہتے ہوئے سبب سے منہ موڑنا اور اسے چھوڑ دینا اللہ کی حکمت ومشیت کو باطل کرنا ہے ۔
اسلام نے جہاں چیزوں کے یقینی اسباب اختیار کرنے کو پسند کیا ہے، وہیں اسباب کی ذاتی سببیت اور اشیاء میں اس کی اثر پذیری اور علت فاعلہ کی سخت نفی کی ہے ، یعنی اسباب وعلل چیزوں کی ایجاد میں موثر حقیقی ہر گز نہیں ہیں ، اسباب بھی اپنے نتائج میں اللہ کی مشیت اور ارادے اور قضاء وقدر کے ہی محتاج ہیں ۔
زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ اللہ کی مرضی وحکم کے بغیر بیماری از خود دوسرے شخص میں متعدی ہوجاتی ہے، اسی طرح الو اور ماہ صفر کو منحوس اور ذاتی حیثیت سے لوگ نقصان دہ سمجھتے تھے ۔ اسلام نے چھوت چھات اور توہم پرستی کی نفی کرتے ہوئے اس عقیدے کو باطل اور لغو قرار دیا اور یہ واضح کیا کہ طبعیت اور خلقت کے لحاظ سے کوئی بھی بیماری دوسرے کو نہیں لگ سکتی، مریض سے تندرست آدمی کی طرف جو کچھ مرض منتقل ہوتا ہوا نظر آتا ہے وہ در اصل اللہ کے حکم اور منشاء سے ہوتا ہے ۔اللہ کی اجازت نہ ہو تو کوئی بھی بیماری کسی کو ہر گز لگ نہیں سکتی !
بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے :
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، امراض میں چھوت چھات صفر اور الو کی نحوست کی کوئی اصل نہیں اس پر ایک اعرابی بولا کہ یا رسول اللہ! پھر میرے اونٹوں کو کیا ہو گیا کہ وہ جب تک ریگستان میں رہتے ہیں تو ہرنوں کی طرح (صاف اور خوب چکنے) رہتے ہیں پھر ان میں ایک خارش والا اونٹ آ جاتا ہے اور ان میں گھس کر انہیں بھی خارش لگا جاتا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا لیکن یہ بتاؤ کہ پہلے اونٹ کو کس نے خارش لگائی تھی؟
اس کی روایت زہری نے ابوسلمہ اور سنان بن سنان کے واسطہ سے کی ہے۔"
۔۔صحیح بخاری 5717)(صحیح مسلم ،کتاب السلام 5788)
اسباب وعلل کی مادی دنیا میں اللہ تعالی نے بعض امراض میں یہ خاصیت بھی رکھی ہے کہ اس کے جراثیم نشست وبرخاست، مصافحہ ، معانقہ، کثرت اختلاط وہم نشینی سے بہت جلد دوسروں میں پہیل جاتے ہیں، ایسے مہلک امراض سے "اسباب سے اجتناب" کے طور پہ احتیاطی اور حفاظتی تدابیر برتنے کا شریعت میں باضابطہ حکم دیا گیا
تاکہ دوسرا آدمی اس بیماری کی زد میں نہ آسکے ۔
چنانچہ صحیحین کی روایت میں ہے :
" لا يُورِدُ مُمْرِضٌ علَى مُصِحٍّ."
[أخرجه البخاري في كتاب الطب، باب لا عدوى، برقم 5775، ومسلم في كتاب السلام، باب لا عدوى ولا طيرة ولا هامة ولا صفر ولا نوء، برقم 2221.
👈" بیمار اونٹ کو تندرست اونٹ کے پاس نہ لے جاؤ" )
ایک دوسری حدیث میں رسول ﷺ نے فرمایا کہ: "فِرَّ من المَجْذومِ كما تفرُّ من الأسدِ"
👈 " جذامی شخص سے اس طرح بھاگو جس طرح شیر سے بھاگتے ہو" (صحیح بخاری 5707)
👈جذامیوں کی بیماری سے بچنے کے لئے حضور اکرم ﷺ نے ان سے ایک نیزہ کے فاصلہ سے بات چیت کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ حدیث میں ہے کہ: "لا تديموا النظرَ إلى المجذمينَ وإذا كلَّمتموهم فليكُنْ بينَكم وبينَهم قيدُ رمحٍ۔عن الحسين بن علي بن أبي طالب./ الهيثمي. مجمع الزوائد. 5/104.
(
👈بیماری کے پھیلنے سے بچاؤ کے لئے طاعون زدہ علاقہ میں نہ جانے اور وہاں سے بھاگنے سے منع کیا گیا ہے:
"إذا سَمِعْتُم بِالطَّاعُونِ بِأرْضٍ فلَا تَدخُلُوا عليه ، و إذا وقَعَ و أنْتُمْ بِأرضٍ فلَا تَخرُجُوا مِنها فِرارًا مِنهُ
عن أسامة بن زيد. أخرجه البخاري (5728)، ومسلم (2218)، وأحمد (21860) واللفظ له.
👈 " جب تمہیں معلوم ہو کہ کسی جگہ طاعون ہے تو وہاں مت جاؤ اور جہاں تم ہو وہاں اگر طاعون پھیل جائے تو اسے چھوڑ کر مت جاؤ" )
🌀چین سے ظاہر ہونے والا کورونا وائرس🌀
ماہرین کے مطابق اب تک کا سب سے خطرناک متعدی مرض ہے،
کورونا سے 97 ممالک میں 3495 افراد کی موت ، ایک لاکھ 2 ہزار سے زائد بیمار،
دنیا بھر میں 56 ہزار مریض اب تک صحت یاب ہو چکے ہیں۔کورونا وائرس کا دنیا بھر میں پھیلاؤ جاری ہے، عالمی ادارۂ صحت کا کہنا ہے کہ وائرس کا پھیلاؤ شدید تشویش کا باعث ہے، تمام ممالک اس کے پھیلاؤ کو روکنے کو اپنی اولین ترجیح بنائیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہاتھ، منہ ، ناک اور آنکھ وغیرہ کے راستے جراثیم نکل کر دوسروں میں منتقل ہوجاتے ہیں، حفاظتی تدابیر کے طور پر ماسک پہننے، مصافحہ، بوس و کنار وغیرہ پہ مراکز صحت نے پابندی عائد کردی ہے ۔
شرعی نقطہ نظر سے ملاقات کے وقت سلام کے بعد مصافحہ کرنا مستحب ہے ، اور خود یہ عمل سنت ہے:
قال النووي: "يُستحبُّ المصافحةُ عند التلاقي، وهي سُنَّةٌ بلا خلاف"؛ (مسلم بشرح النووي، جـ9، صـ115،، المصافحة سُنَّة مُجمَع عليها عند التلاقي؛ (فتح الباري؛ لابن حجر، جـ11، صـ 55).
جبکہ صحت کی حفاظت اور نفس انسانی کا تحفظ واجب ہے : وَأَنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ ۛ (البقرة: 195)
"نقصان کا ازالہ نفع کے حصول پہ مقدم ہے " کے فقہی شرعی ضابطے کے تحت ، دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے والے مہلک کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر جن ملکوں اور علاقوں میں اس وبائی مرض کے کیسز کی تصدیق ہوچکی ہو وہاں مصافحہ وتقبیل سے اجتناب کرنے کی شرعی گنجائش ہے، مصافحہ کی شرعی حیثیت سنت کی ہے جبکہ جان کا تحفظ مقاصد شرع میں ہے اور واجب وضروری ہے ؛ لہذا ان ہنگامی حالات میں وقتی طور پر دفع مضرت کی نیت سے اس سنت پہ عمل نہ کرنے میں کوئی شرعی حرج نہیں ہے ۔واللہ اعلم
شکیل منصور القاسمی/بیگوسرائے
8 مارچ، ہفتہ 2020